Lashkar Newspaper

Personality
Home
URDU LASHKAR
KUTUB KHANA
Indian Cities
Personality
Corporate News
Views
Kids
Profile
Nation
International
Contact Us
Our Location
For more information,please mail to; masoodrezvi@gmail.com
لکھنو کی شاندار اور یادگار تصاویر کے لئے مسعود رضوی سے رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے۔کم عرصہ میں‌مسعود رضوی نے کیمرے سے جو کمال دکھایا اسکو آپ بھی دیکھ کر حیرت زدہ ہو سکتے ہیں!

مایوسیوں نے چھین لئے دل کے ولولے


سید حسین افسر
اتر پردیش اسمبلی کے الیکشن میں شرمناک شکست کے بعد کا غم بھارتیہ جنتا پارٹی کے جغادریوں پر طاری ہے،مگر اسی کے ساتھ۔ساتھ وہ اپنی ذمہ داری ایک دوسرے کے سر کر نے کی سیاسی حرکت کر رہے ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران الیکشن سے قبل جس دہاڑ کا مظاہرہ کر رہے تھے اب انکی آواز میاؤں جیسی ہو گئی ہے،رہی ۔سہی کسر مایاوتی نے پوری کر دی ہے۔ سر دست اتر پردیش میں حزب اختلاف کا شیرازہ منتشر ہے اور کسی میں دم نہیں کہ موجودہ سرکار کے خلاف آواز بلند کر سکے۔ در اصل سیاسی لیڈروں کے پیچیدہ ،معاملات اور انکی بے ایمانیوں کی داستان طشت از بام ہو چکی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ بعض کے ساتھ بعض ایسے بھی ہیں جنکے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ گیہون کے ساتھ گھن بھی پسے جا رہے ہیں ۔
 بہرحال اتر پردیش اسمبلی میں بی جے پی کی شکست اور انکے چہروں پر پڑی غرور کی نقاب کو ہٹانے کا کام مایاوتی نے جس خوبصورتی سے کیا ہے اس سے بھگوا دھاری بے ہوش نظر آ رہے ہیں۔ اب انکی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا ہے کہ ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں بھگوا دھاریوں کے سیاہ چہروں کو سر خرو کس طرح سے کیا جائیگا۔
بی جے پی کی لیڈر شپ تھکی اور ہاری نظر آ رہی ہے اب وہ آپس میں گتھم گتھا ہی اور مایوسی کے نالوں سے نکلنے کے لئے ہات۔پیر مار رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں بی جے پی کی مجلس عاملہ میں پارٹی کے گھاگ لیڈر لال کرشن ایڈوانی کا صدر نشین راج ناتھ سنگھ پر حملہ بولنا، اس بات کی طرف اشارہ کر رہاہے کہ بی جے پی کے لیڈر فی الحال شدید کرب میں مبتلا ہیں۔انکے چہروں کی ہوائیاں، پیشانیوں پر شکنیں اور ذہنوں میںپشیمانیاں بیکوقت دیکھی جا سکتی ہیں مگر انکی پریشانی یہ ہے کہ وہ کریں تو کریں کیا۔ یو پی اے سے دوری، بی ایس پی سے فاصلہ اور سماجوادی پارٹی بظاہر کوئی سر و کار نہ رکھنے کا ڈرامہ بھی انکی ناؤ کو کنارے نہیں لگا سکتا۔حالانکہ اتر پردیش اسمبلی میں حزب اختلاف کے منتشر ہونے کی وجہ سے بی جے پی والے بھی پریشان ہیں اور اب دو دن کی کارروائی میں یہ دیکھا گیا کہ سماجوادی پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے بیچ قربت بڑھی ہے۔
ادھر کانگریس کے ایم ایل اے مایاوتی کی سرکار کو اپنی سرکار سمجھ رہے ہیں اسلئے انکو ایوان کی کارروائی میں جارحانہ انداز اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں نے اس میٹنگ میں پہلے تو یہ محسوس کی گئی تھی کہ پارٹی کے صدر شاید شکست کے لئے خود ذمہ داری قبول فرمائیں گے مگر یہ نہیں ہوا۔ الزامات کا ٹھیکرا ایک دوسرے کے سر پھوڑا گیا۔ایڈوانی کی شکایت تھی کہ راج ناتھ سنگھ نے پارٹی کی یو پی میں شکست کا معاملہ در کنار کردیا ، جبکہ اس مسئلہ پر سب سے زیادہ غور و فکر کی ضرورت تھی۔ایڈوانی کی بات کو پارٹیء کے چند ان لیڈروں نے بہتر محسوس کیا جو راج ناتھ سنگھ کے مخالف ہیں لیکن ایڈوانی کے لب و لہجہ نے پارٹی کے مسائل حل کرنے کے بجائے اسکو ایک ایسے چوراہے پر لا کر کھڑا کردیا جہاں سب نے دیکھ لیا کہ بھاجپا کے گھر میں طوفان برپا ہے۔ بی جے پی کے مخالفین عام بطور سے اسکو بے شرم، بے حیا اوت بے غیرتوں کی پارٹی کہا کرتے ہیں اس نئے جوتم پیزار سے پارٹی کے داخلی معاملات بہتر ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں ۔اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ لیڈر کیا کارکن سب ہی ناکامی اور مایوسی کا شکار ہیں اور کسی بھی صورت میں وہ موجودہ سرکار کے خلاف یا اپنے مخالفین سے صف آرا نہیں ہو سکتے۔
کلیان سنگھ نے تو الیکشن کی ناکامی کے بعد اپنے گھر کا ایک کونہ آباد کر لیا ہے اور وہ پہلے سے ہی راج ناتھ سنگھ کے طور طریقوں سے نالاں ہیں اب رہی سہی کسر ایڈوانی نے کھل کر پوری کر دی ہے۔ ادھر ضعیف العمر لیڈر پنڈت اٹل بہاری باجپئی کی پارٹی میں زیادہ نہیں چلتی ہے۔ لیڈروں اور کارکنان انکی باتوں اور احکامات پر سرگوشیوں میں مصروف نظر آنے لگتے ہیں۔ بی جے پی جب جب بر سر اقتدار تھی تو عام طور سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ پارٹی میں امن و چین ہے مگر حکومت کی معزولی کے بعد سے یہ سب پر عیانہو گیا کہ اس طرح کی حرکتیں پارٹی کا مزاج بن چکی ہیں۔ ادھر بی ایس پی کی برہمن نوازی سے بھی بی جے پی میں طوفان ہے۔سوال کیا جا رہ اہے کہ برہمن پارٹی سے دور کیوںہوئے۔ایڈوانی کھل کر برہمنوں کی وکالت کر رہے ہیں مگر کلیان سنگھ پہلے سے ہی برہمنوں کو اہمیت دینے کی پالیسی سے دور رہے ہیں۔ بی جے پی سے ہمدردی رکھنے والوں کا کہنا کہ پارٹی کو اپنی طاقت بڑھانے کے لئے لیڈروں کے اتحاد پر زور دینا ہوگا۔ مہاراشٹر میں شیو سینا سے رشتوں میں پڑی درار کا بھی پارٹی کو خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے،یعنی اسکے لیڈر چاروں طرف نظر دو را رہے ہیں مگر انکو روشنی میں آنے میں آنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
انکی عقل کہاں چلی گئی اور انکے سارے ہتھیار کیوں ناکام ہو رہے ہیں پارٹی کی اعلی قیادت کے لئے ایک سوال ہی نہیں ایک گتھی ہے جو کوئی بھی سلجھانے سے قاصر ہے۔ بی جے پی کی یو پی میں ناکامی پر آج بھی دو۔ ایک لیڈر یہ کہتے ہیں کہ پس پردہ سماجوادی پارٹی سے دوستی کا ہی یہ نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ملائم سنگھ یادو کے دور اقتدار میں ۔ حزب اختلاف کے رول کے بجائے دوستانہ رویہ اختیار کیا تھا۔اس دوستی سے دونوںہی پارٹیوں کو اسمبلی کے الیکشن میں نقصان پہنچا۔بی جے پی کے سینیر لیڈر اور اس وقت کے لیڈر حزب اختلاف لال جی ٹنڈن سے ملائم سنگھ کی دوستی اور ایوان میں احتجاج اور مذمت نہ کرنے کی پالیسی نے بھی شکوک پیدا کر دئے تھے ۔ بی جے پی کے ہی بعض لیڈروں کا کہنا ہے کہ جس وقت پورا اتر پردیش جرائم کی آگ میں جھلس رہا تھا، بی جے پی کے بڑے لیڈر جس طرح سے مذمت کر رہے تھے اس سے دوستی کی بو آر ہی تھی۔ بھارتیہ جانتا پارٹی میں برپا طوفان کو سنگھ پریوار کے’ باپ۔بھیا‘ بھی روکنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔ گزشتہ تین سال سے پارٹی کی کمر ٹوٹنا شروع ہو چکی تھی۔ کچھ خود بھاگ گئے ، کچھ کو دوسری پارٹیوں نے بھگانے کا کام کیا۔اس سے نتیجہ یہ بر آمد ہوا کہ ۔’ دیو پیکر۔‘ لیڈر بونے اور بالشتیہ ہوگئے۔باجپئی، ایڈوانی،کلیان سنگھ، راج ناتھ سنگھ اور دوسرے نیتا مرجھائے، افسردہ، مضمحل،مضطرب اور ناکام عاشقوں کی طرح ایک دوسرے کا منھ دیکھتے رہتے ہیں،فوری طور سے بی جے پی کے بھارنے کی کوئی راہ انکو نظر نہیں آ رہی ہے۔ یعنی کنول، کمل یا لوٹس بہت دنوں تک مرجھایا رہے گا۔باجپئی کو یہ بھی فکر ہے کہ خزان کے اس دور میں بی ایس پی برہمنوں میں اپنی مزید مقبولیت نہ حاصل کر لے۔
 ادھر مایا وتی نے ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن کے لئے برہمنوں کو خوش کرنے اور اپنی پارٹی سے مربوط کرنے کے لئے پوری طاقت جھونکنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بی ایس پی کے سب سے بڑے برہمن نیتا ایس سی مشرا کے لئے اعلان کیا گیا ہے کہ انکو دو مہینے بعد وزارت سے سبکدوش کر دیا جائیگا تاکہ وہ تنظیمی کام انجام دے سکیں اور پورے ملک کے برہمنوںکو بی ایس پی کا راستہ دکھا سکیں۔مگر مایاوتی کے ناقدین جن میں کچھ چینل بھی ہیں انکا خیال ہے کہ بی ایس پی میں چماروں اور نچلی ذاتوں کو وہ اہمیت نہیں دی جا رہی ہے جو پارٹی کا خمیر ہیں۔یعنی بی ایس پی پنڈتوں کو تناسب سے زیادہ عہدوں پر براجمان کر رہی ہے اور بعض تجزیہ کاروں کی یہ پیشین گوئی ہے کہ بی ایس پی یہ حکمت عملی اختیار کر کے شیڈیول کاسٹ اور دوسرے فرقوںکو غلط پیغام دے رہی ہے۔
 لیکن مایاوتی پارٹی کے ہاتھی کو تیزی سے دوڑا رہی ہیں اور انکی منزل پارلیمان ہے جس میں ہاتھی کی سواری کرنے والے ارکان پارلیمان کی تعداد بڑھانا ہی انکا اصل مقصد ہے، ظاہر ہے ایوان میں جس کی تعداد زیادہ ہوگی اسکو وزارت سازی میں زیادہ موقع ملنے کی امید ہے۔ بی ایس پی کا نشانہ اب وزارت عظمی پر ہے پارٹی میں اسی مقصد سے کام بھی شروع کیا جاچکا ہے۔
 بی جے پی کے لیڈروں کے جمگھٹ کے باوجود بی ایس پی کی واحد لیڈر بھگوا دھاریوں کو مصیبت میں مبتلا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔انکی حکمت عملی کہاں تک کامیاب ہوگی یہ فوری طور سے نہیں کہا جاسکتا۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی کے چراغوں سے نکلی ہوئی ہوئی لو سے ہی اسکا سب کچھ خاکستر ہوا ہے۔

.

.

Enter supporting content here

Lashkar Urdu and English news website

Urdu Newspaper